High Flying Birds Teddy Kabootar Bazi In Pakistan
ٹیڈی کبوتر
ٹیڈی نسل کے بارے میں کبوتر پرور حلقوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہے ۔کچھ لوگوں کے مطابق ٹیڈی کبوترللیانی کے میاں فیملی کی تیار کردہ ہے۔ جبکہ ایک طبقہ کی یہ رائے ہے کہ یہ قصوری کبوتر ہیں۔ یہ ایک بہت تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ جسے میں آج اپنے قارئین کے لیے وضاحت سے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ بلکہ میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ عوام اور کبوتر پرور حضرات تک درست معلومات اور حقائق پہنچائے جائیں نہ کہ غلط معلومات اور خقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے انہیں گمراہ کیا جائے۔ ٹیڈی کبوتر قصور کے مستری خاندان کے کبوتر پرور بائوشیدے ٹیڈی کے ہیں جو انہوں نے مرحوم استاد کریم بخش کی رنگ والی کبوتری میں مسے کبوتر اور تصویری کبوتر کے کراس سے تیار کیے تھے. اب میں تھوڑا قارئین کی کشادگی ذہن اور پس پردہ موجود حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے تاکہ ٹیڈی کبوتروں کے بارے میں پایا جانے والا ابہام حقائق اور دلائل کے ساتھ دور کیا جا سکے۔ اس کے لئے میں قصور شہر کی کبوتر پروری کی تاریخ سے چند واقعات سپردقلم کرناضروری سمجھتا ہوں۔
واقعہ
یہ 1972 – 73 کی بات ہے جب قصور میں ان دنوں بائوشیدے وغیرہ کے ساتھ مرحوم استاد کریم بخش کی بازیاں اڑا کرتی تھیں۔ انہی دنوں استاد کریم بخش کی ایک جونسری کبوتری اڑا کرتی تھی۔ یہ کبوتری پرواز میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب قصور میں مستری خاندان کا طوطی بولتا تھا۔ اس دور میں استاد کریم بخش کی ان سے بازیاں طے ہو گئیں۔اور جب بازیاں اڑنا شروع ہوئیں تو مستریوں کے کبوتر 1 اور 2 بجے کے درمیان بیٹھتے تھے جبکہ استاد کریم بخش کی یہ کبوتری انہیں 2 گھنٹے کی لیڈ دے کر 4 اور 5 بجے شام کے درمیان بیٹھا کرتی تھی اور جب انہیں بازیوں میں یکے بعد دیگرے اس کبوتری نے شکست فاش سے دوچار کیا تو مستری خاندان کے مستری غلام محی الدین المعروف مستری دین نے واشگاف الفاظ میں یہ بات کہی تھی کہ ہمارے کبوتروں سے بڑھ کر اس گرمی میں کوئی کبوتر پرواز کرکے نہیں آ سکتا۔
یہ کبوتری کہیں بیٹھ کر آتی ھے جس پر اگلے سال مستریوں نے کریم بخش سے بازی لگاتے وقت یہ شرط رکھی کے اس جونسری کبوتر کو بھرپور رنگ لگایا جائے گا۔ کیونکہ ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ کبوتری کہیں سے بیٹھ کر آتی ہے۔ جس پر استاد کریم بخش مرحوم نے کئی کبوتر پرور افراد کی موجودگی میں یہ کہا تھا کہ آپ کی ہار نے آپ کو اتنا بوکھلا کررکھ دیا ہے۔ کہ آپ کو ہر آدمی بے ایمان نظر آتا ہے۔ مجھے آپ کی یہ شرط بھی منظور ہے۔ میری کبوتری کو آپ اپنے ہاتھوں سے رنگ لگاؤ اوریہی کبوتری اس سال پھر تمہیں چاروں شانے چت کرے گی اور میدان میں مقابلہ نے کریم بخش مرحوم کی یہ بات سچ کر دکھائی۔ قصور کی تاریخ میں پہلی بار اس کبوتری کو رنگ لگانا تھا اس کی اسی رنگ والی جونسری نے مستری دین اور اس کے دیگر ساتھیوں کو اس برے طریقے سے شکست سے دوچار کیا۔ جس نے قصور میں کبوتر پروری کے میدان میں مستری خاندان کوکئی برسوں سے چلی آرہی برتری کو مٹی میں ملا دیا اور ہر طرف استاد کریم بخش اور اس کی رنگ والی کبوتری کی تعریف اور تذکرے کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
لیکن استاد کریم بخش مرحوم نے خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کے بجائے کچھ ایسے بڑے بول بولے جو شاید خدا کو پسند نہ آئے۔ کیونکہ پروردگارکو بڑا بول سخت ناپسند ہے اور اگلے سال خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ یہی جونسری رنگ والی کبوتری جس نے قصور میں مستری خاندان کے طلسم کو چکنا چور کر کے کبوتر پرور برادری کو ان کے سحر سے آزاد کیا تھا، وہی کبوتری غلط حکمت عملی کے باعث بازی کے دوران گھر کے بجائے باہر جا بیٹھی، جہاں سے کسی طریقے سے یہ کبوتری مستریوں کے پاس آ گئی جسے بائو شیدے نے اپنے گھر لے جا کر ایک مسے کبوترسے اسے کراس دیا۔
ایک بات یہاں میں آپ سب کی معلومات کے لیے مزید بتاتا چلوں وہ یہ کہ پورے قصور میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے۔ جس کا تذکرہ میں نے قصور کے اکثر کبوتر پرور حضرات کے منہ سے سنا ہے وہ یہ ہے کہ مستری حضرات اپنے گھر کے کبوتر کسی کو بہت کم یعنی نہ ہونے کے برابر دیتے تھےبلکہ مستری صاحبان اپنے شاگردوں تک کو بھی اپنے کبوتروں کے گرد بھٹکنے نہیں دیتے تھے۔
جب بائو شیدے نے یہ رنگ والی کبوتری کا مسے کبوتر کے ساتھ جوڑا لگایا تو اس سے جو بھی بچے نکلے وہ انہوں نے کبوتری کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے جوڑوں کے لئے کاٹنے شروع کر دیے۔ کیونکہ یہ بچے نکلتے ہی بہت حسین و جمیل تھے۔ چھوٹے ہوتے اس جوڑے کے بچے گہرے جونسرے، کلپرے اور کلسرے ہوتے تھے، جن کی پشت پر کہیں کہیں ایک یا دو کالے پر آتے تھے اور بڑے ہو کر یہ گہرے کلسرے، سلائی والے کلدمے بنتے تھے۔
جن کی آنکھیں بادامی ڈورے دار ہوا کرتی تھیں۔ ان میں جو کمی تھی وہ یہ تھی کہ اس جوڑے کے بچوں کی دمیں بڑی نکلتی تھیں۔ مصطفی آباد للیانی میں میاں خاندان بھی کبوتر پروری میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ اور قصور کے مستری خاندان سے متعدد بار پنجہ آزما ہو چکا تھا۔ اس خاندان کے بزرگ استاد میاں نذیر کو اللہ تعالی نے کبوتر پروری کا علم ودیعت کر رکھا ہے۔ بائو شیدے کے گھر سے ایک روز اس جوڑے جسے شیدے ٹیڈی کی مناسبت سے مستری ٹیڈی کا جوڑا کہتے تھے۔ دراصل اسے پہلے شیدے ٹیڈی کے کبوتر کہتے تھے ، بعد میں اس نسل کا نام ٹیڈی پڑ گیا۔
بات ہو رہی تھی بائوشیدے کے ٹیڈی کی۔ ایک روز اس جوڑے کا ایک بچہ شیدے کے گھر سے کھڈے میں سے نکل گیا۔ جو قصور کے ایک چڑی مار نے پکڑ لیا، جہاں سے قصور کے معروف کبوتر پرور شخصیت لالہ یوسف وہ یہ بچہ اپنے گھر لے آئے۔ جب انہوں نے استاد میاں نذیر کو یہ بچہ دکھایا تو لالے یوسف نے انہیں یہ کہا کہ استاد جی یہ بچہ لمبی دم سے مار کھا گیا ہے۔ ورنہ رنگ اور جسم کے حساب سے یہ بہت ہی اعلی نسل ہے۔ جس پر میاں نزیر نے کہا اس بچے میں مجھے تاریخ رقم کرنے والی خوبیاں نظر آ رہی ہیں۔ ایک دن آئے گا جب اللہ کے حکم سے پاکستان بھر کے کبوتر پرور اس بچے کی نسل حاصل کرنے کے لئے لیے سفارشیں ڈھونڈتے پھریں گے۔ یہاں میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مستری حاندان نے اس وقت تک اس نسل کا کوئی بھی کبوتر کسی مقابلے میں نہیں اتارا تھا۔
میاں نذیر نے لالہ یوسف سے لئے ہوئے بچے کو گھرلے جا کر باہر سے گول کر کے چھوڑ دیا۔ بڑا ہو کر یہ بچہ کبوتری بنی جسے میاں نذیر نے قصور کے ملک ظفر کے دیئے ہوئے ایک کبوتر میاں سعید والے سے کراس دیا اور اس میں سے جو بچے نکلے جب انہیں اڑایا گیا تو انہوں نے حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس پر میاں نذیر نے اس نسل کو آگے بڑھانے کے لئے ان میں سے نر بچے کو کبوتری سے کراس دیا۔ تو اس جوڑے کے بچے نے اپنے باپ کے رزلٹ کو بھی مات دے دی۔ اس پر میاں نذیر کے ایک شاگرد نے کہا کہ اس نسل کا نام بارود رکھ دیا جائے۔ جب کہ چند احباب نے بھی اپنی اپنی رائے کے نام تجویز کیے۔ لیکن میاں نذیر صاحب نے سب سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہا کہ اصل میں نسل تو ماں سے چلتی ہے۔ کیونکہ اگر زمین بنجر ہو اس میں چاہے کتنا بھی اچھا بیج ڈال دیا جائے فصل صحیح نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کبوتری نسل دار نہ ہو یا اپنی نسل میں مکمل نہ ہو تو ایک کامیاب جوڑا نہیں بن پاتا اور جس کبوتری کی یہ اولاد ہے۔ یہ تو شیدے ٹیڈی کی ہے۔ لہذا اس نسل کا نام ٹیڈی رکھا جائے تاکہ مستریوں کو بھی پتہ چلے کہ ایک کبوتری سے ایک وننگ نسل ایجاد کرنے کے باوجود غرور اور تکبر کو اپنے نزدیک نہیں آنے دیا اور اس کو ہمارا ہی نام دیا ہے۔ اس نسل کے کبوتر لاہور میں پہلی مرتبہ میاں نذیر نے لاہور کے ایک معروف استاد مہر اصغر کی چھت پر اڑانے کے لئے چھوڑے اور ان دنوں مہراصغر کی بازیاں لاہور کے ایک معروف استاد فیو سے لگی ہوئی تھیں۔
اور گرمی بھی بہت سخت تھی تو اسی ٹیڈی نسل کے کبوتر نے حیران کن پروازوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے استاد فیو سمیت مہر اصغر کو جتنے استادوں سے بازیاں تھیں سب کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس کے بعد مہر اصغر ایک عرصہ لاہور کی کبوتر پروری پر چھائے رہے۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں لاہور کے مختلف نامور اساتدہ جن میں استاد صفدر ٹینٹاں والا اور استاد سخی بھٹی سرفہرست ہیں، میاں نذیر ٹیڈی نسل کے کبوتر لے کر آئے۔ جنہوں نے اپنے مد مقابل حریفوں کو ہمیشہ شکست سے دوچار کیا۔ درحقیقت ٹیڈی کبوتر بنیادی طور پر مستری خاندان کے بائوشیدے ٹیڈی کے گھر کے ہیں، لیکن بائو شیدے کے ٹیڈی کبوتر چھوٹے پلے اور لمبی دموں کے تھے۔ جن کی پروازوں کے بارے میں کوئی بھی کبوتر پرور یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مستری صاحبان نے کسی بھی مقابلے میں اپنے یہ کبوتر میدان میں نہیں اتارے تھے، کیونکہ میاں نذیر نے میاں سعید والے سلاروں کے کراس سے جوٹیڈی بنائے وہ پرواز اور عقل میں مثال ہیں اور میاں نذیر نے ہی ٹیڈی کبوتروں کو میدان میں مقابلہ میں متعارف کروایا جس کے باعث آج دنیا بھر کے کبوتر پرور حلقوں میں ٹیڈی نسل کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ لہٰذا جن ٹیڈی کبوتروں کی پروازوں نے کبوترپرور حلقوں کو حیرت میں ڈالا وہ میاں نذیر کے بنائے ہوئے کبوتر ہی ہیں.
ٹیڈی کبوتر 2 —3 رنگوں میں پائے جاتے ہیں جن میں ہلکے جونسرے، گہرےکلسرے اور گہرے کلسرے کلدمے یعنی سلارے۔ ٹیڈی کبوتروں میں اے کلاس کبوتروں میں درج ذیل خصوصیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔
ٹیڈی کبوتروں کی خصوصیات
یہ کبوتر پہلے سال ہلکے جونسری پروں میں ایک دو پر کالے دم میں ایک دو پھیکے کالے لنگوٹ یعنی کالے پر ہوتے ہیں۔ آنکھ کی رنگت سفید ہوتی ہے ۔ یہ کبوتر اگلے سال گہرے کلسرے سلائی دار دم میں زیادہ پر کالے آ جاتے ہیں۔ یعنی نویں لنگوٹ دار ہو جاتے ہیں۔ کبوتر کی چونچ درمیانی اور سیاہ ہو۔ پنجے خشک اور ناخن نوکیلے ہوں۔ گردن لمبی اور باریک ہو۔ چھاتی درمیانی ہو۔ جسم کی ہڈی درمیانی اور مضبوط ہو۔ دم بند اور چھوٹی ہو۔ جبکہ آنکھ سفید صاف چمکدار ہو۔ آنکھ کی پتلی بہت باریک نہ ہو۔ کبوتر کی پشت پر چار یا پانچ قالے داغ ہو۔ یہ اس نسل میں میرے نزدیک سب سے بڑیھیا کبوتر کی نشانیاں ہیں